بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مسائل حل کرنے کیلئے نیشنل پارٹی کے سربراہ کا وزیر اعظم سے رابطہ

گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقے جو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت میں دھرنوں اور مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں، وہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کی وجہ سے کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تاہم، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی جانب سے دونوں فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مسائل کو بات چیت کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کریں، اور اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعظم سے رابطہ کیا ہے۔

حکام کی جانب سے 7 اگست کو بتایا گیا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کے کی کوششوں کے باوجود تعطل برقرار ہے۔

حکومتی نمائندوں کی جانب سے دعوے میں کہا گیا تھا کہ وہ معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قیادت پر الزام لگایا ہے کہ وہ گوادر، کوئٹہ، نوشکی، تربت اور آواران میں احتجاج ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مذاکرات میں شامل ثالثوں نے تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر گزشتہ ہفتے طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے 21 ویں وزیر اعلیٰ کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر عبدالمالک نے صورتحال کی سنگینی پر زور دینے کے لیے وزیر اعطم شہباز شریف، قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی سے بھی رابطہ کیا ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے خبردار کیا ہے کہ طاقت کا استعمال کشیدگی کو بڑھا سکتا ہے، ساتھ ہی حکومت پر زور بھی دیا ہےکہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’حکومت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور تمام معاملات بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔‘

نیشنل پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ اعلیٰ وفاقی اور صوبائی سیاسی شخصیات نے ڈاکٹر عبدالمالک کو یقین دہانی کرائی کہ مسائل بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں گے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت بھی مذاکرات کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.